Advertisement

Responsive Advertisement

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بہن

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بہن

میرے حضور ﷺ کی تو کوئی بہن نہیں تھی لیکن جب آپﷺ سیدہ حلیمہ سعدؓیہ کے پاس گئے تو وہاں حضورﷺ کی ایک رضاعی بہن کا ذکر بھی آتا ہے جو آپﷺ کو لوریاں دیتی تھیں اس کا نام سیدہ شیؓما تھا ۔
شام کے وقت جب خواتین کھانا پکانے میں مصروف ہو جاتیں ،تو بہنیں اپنے بھائی اٹھا کر باہر لے جاتیں اور ہر بہن کا خیال یہ ہوتا کہ میرے بھائی سے زمانے میں زیادہ خوب صورت کوئی نہیں ۔کہتے ہیں خوب صورتی دیکھنے والے کی آنکھ میں ہوتی ہے تو جس کے بھائی کا رنگ حسین ہوتا تو وہ کہتی رنگ نہیں تو کچھ بھی نہیں اور جس بہن کے بھائی کے نقوش اور خد و خال خوب صورت ہوتے وہ کہتی رنگ کیا ہے اصل خوبصورتی تو نقوش اور خد و خال کی ہے جس بہن کے بھائی کی آنکھیں خوبصورت ہوتیں وہ کہتی میرے ویر کی جھیل جیسی آنکھیں تو دیکھو ۔
اب بنوسعد کے محلے میں بچیاں اپنے بھائی اٹھاتیں ایک کہتی میرے بھائی جیسا کوئی نہیں اور دوسری کہتی میرے بھائی جیسا کوئی نہیں
اتنے میں سیدہ شیمؓا اپنا بھائی سیدنا محمد ﷺ اٹھا کے لے آتیں اور دور سے کہتی میرا بھائی بھی آ گیا ہے تو سب کے سر جھک جاتے اور کہتیں نہیں نہیں تیرے بھائی کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا ہم تو آپس کی بات کر رہے ہیں آپ سے مقابلے کی بات تو نہیں کر رہے اور پھر جب کسی بہن کے بھائی کو سب متفقہ طور پر کہتیں کہ تیرا بھائی خوبصورت ہے تو اس کا فخر بھی تو دیدنی ہوگا اور اس کا ذوق آسمان کو چھونے لگتا
ابن ہشام سیرت کی سب سے پہلی کتاب ہے اسی میں یہ واقعہ لکھا ہے کہ سیدہ شیمؓا حضور ﷺ کو اپنی گود میں لے کے سمیٹتیں اور پھر جھومتیں اور پھر وہ لوری دیتیں  اور لوری کے الفاظ بھی لکھ دئے  ہیں جن کا ترجمہ ہے

اے ہمارے ربّ میرے بھائی محمد(ﷺ) کو سلامت رکھنا آج یہ پالنے میں بچوں کا سردار ہے کل وہ لمبے ہوئے جوانوں کا بھی سردار ہوگا اور پھر جھوم جاتیں ۔

ہوتے ہوتے وہ زمانہ بھی آیا کہ حضور ﷺ مکے چلے گئے اور سیدہ شیمؓا بھی جوان ہوئی جن کی شادی بھی کسی قبیلے میں ہوگئی حضور ﷺ نے اعلان نبوت کیا تیرہ سال کا وقت بھی گزر گیا اور آپ ﷺ مدینہ شریف چلے گئے ۔
جب غزوات کا سلسلہ شروع ہوا تو جس قبیلے میں سیدہ شیمؓا کی شادی ہوئی تھی اس قبیلے کے ساتھ مسلمانوں کا ٹکراؤ آ گیا اللہ رَبُّ العِزَّت نے مسلمانوں کو فتح عطا کر دی تو اس قبیلے کے چند لوگ صحابہ کرام ؓ کے ہاتھوں گرفتار ہوکر قید کر دئے گئے تو یہ لوگ اپنے قیدیوں کو چھڑانے کے لئے فدیہ جمع کرنے لگے اور قبیلے کے سردار ایک ایک گھر سے رقم جمع کر رہے ہیں ۔
چلتے چلتے یہ سیدہ شیمؓا کے گھر پہنچ گئے جو کہ اپنی عمر کا ایک خاص حصّہ گزار چکی تھیں اس سے کہنے لگے کہ اتنا حصّہ آپکا بھی آتا ہے ۔
سیدہ شیمؓا نے کہا
کس لئے ؟
سردار اور ساتھ والے لوگوں نے کہا جو لڑائی ہوئی ہے اور اس میں ہمارے آدمی گرفتار ہوچکے ہیں باتیں کرتے کرتے کسی کے لبوں پر محمد ﷺ کا نام بھی  آ گیا تو سیدہ شیؓما سُن کر کہنے لگی اچھا انہوں نے تمہارے لوگ پکڑے ہیں کہا ہاں
سیدہ شیمؓا نے کہا کہ تم رقم اکٹھی کرنا چھوڑ دو مجھے ساتھ لےچلو ۔
سردار نے کہا آپ کو ساتھ لے چلیں ؟ 
سیدہ شیؓما کہنے لگیں ہاں تم نہیں جانتے وہ میرا بھائی لگتا ہے ۔
قوم کے سرداروں کے ساتھ سیدہ شیؓما حضور ﷺ کے نوری خیموں کی طرف جا رہی ہیں اور صحابہ کرامؓ ننگی تلواروں سے پہرہ دے رہے ہیں  ،یہ مکی دور تو تھا نہیں مدنی دور تھا ۔
اور سیدہ شیمؓا قوم کے سرداروں کے آگے جب بڑھنے لگیں تو صحابہ ؓ نے تلواريں سونتیں اور پکارا
او دیہاتی عورت رُک جا دیکھتی نہیں آگے کوچہِ رسول ﷺ ہے آگے بغیر اذن کے جبریلؑ بھی نہیں جا سکتے تم کون ہو؟؟؟؟
تو سیدہ شیمؓا نے جواب میں جو الفاظ کہے ان کا اردو ترجمہ یہ ہے ۔
میری راہیں چھوڑ دو تم جانتے نہیں میں تمہارے نبی ﷺ کی بہن  لگتی ہوں ۔
تلواریں جھک گئیں آنکھوں پر پلکوں کی چلمنیں آ گئیں راستہ چھوڑ دیا گیا سیدہ شیمؓا حضور ﷺ کے خیمہِ نوری میں داخل ہو گئیں تو حضور ﷺ نے دیکھا اور پہچان گئے ۔ فوراً اٹھ کھڑے ہوئے فرمایا بہن کیسے آنا ہوا ؟
کہا آپ ﷺ کے لوگوں نے ہمارے کچھ بندے پکڑ لئے ہیں اُن کو چھڑانے آئی ہوں ۔
حضور ﷺ نے فرمایا بہن تم نے زحمت گوارا  کیوں کی ۔پیغام بھیج دیتیں میں چھوڑ دیتا لیکن تم آ گئیں اچھا ہوا ملاقات ہو گئی ۔
پھر حضور ﷺ نے قیدیوں کو چھوڑنے کا اعلان کیا کچھ گھوڑے اور چند جوڑے سیدہ شیؓما کو تحفے میں دیدیں کیونکہ بھائیوں کے دروازے پر جب بہنیں آتی ہیں تو بھائی خالی ہاتھ تو  بہنوں کو نہیں مڑا کرتے ۔
حضور ﷺ نے بہت کچھ عطا کیا اور رخصت کرنے خیمے سے باہر تشریف لے آئے تو صحابہ ؓ کی جماعت منتظر تھی

فرمایا اے صحابہ ! آپ جانتے ہیں کہ جب بھی میں قیدی چھوڑا کرتا ہوں تو میری یہ عادت ہے کہ آپ سے مشاورت کرتا ہوں لیکن آج ایسا موقع آیا کہ میں نے آپ سے مشاورت نہیں کی اور قیدی بھی چھوڑ دئیے 
آپ جو چاہیں کریں صحابہ ؓ نے عرض کیا کہ حضور ﷺ مشاورت کیوں نہیں کی ارشاد تو فرمائیں فرمایا میرے دروازے پر میری بہن آئی تھیں ۔


Post a Comment

0 Comments